Orhan

Add To collaction

بدلتی قسمت

بدلتی قسمت از مہمل نور قسط نمبر18

چھ ماہ بعد۔۔۔۔ آسلام علیکم میم۔۔۔میرا نام سلیم محمود ہے اور میں آپکا پی اے ہوں۔۔۔ وعلیکم السلام سلیم صاحب۔۔آپ سے مل کر خوشی ہوئی۔۔۔بہت پر اعتماد انداز میں کہتی ہوئی وہ اپنی کرسی پر براجمان ہوئی۔۔۔ مجھے بھی میم۔۔۔آج آپکا فرسٹ ڈے ہے۔۔۔آپ کے آنے کی خوشی میں ہم نے چھوٹی سی پارٹی رکھی ہے اگر آپ برا محسوس نہ کریں تو کیا آپ آج لنچ ہمارے ساتھ کریں گی۔۔۔سلیم نے ہچکیچاتے ہوۓ پوچھا۔۔۔ جی بلکل۔۔۔لیکن اس سے پہلے آپ مجھے فائلز لا دیں۔۔۔تاکہ میں اپنا کام سٹارٹ کر سکوں۔۔۔ جی میم۔۔میں ابھی لایا۔۔۔ادب سے جواب دیتے ہوئے روم سے چلا گیا۔۔۔۔ اور وہ بس غور سے ہر چیز کو دیکھ رہی تھی۔۔۔اس کی قسمت میں یہ سب تو لکھا جا چکا تھا پر شاید یہ سب کچھ اسےبہت قربانیوں کے بعد ملنا تھا۔۔۔ابھی بھی وہ اپنے خیالوں میں ہی کھوئی تھی کہ سلیم نے اسکے سامنے فائلز رکھی۔۔۔ میم یہ فائلز ہیں۔۔۔ان پر کے آپ کے سائن بہت ضروری ہیں۔۔۔آپ اپروو کریں گی تبھی یہ کمپنز کام کر سکے گی۔۔۔یہ اس شہر کی بڑی کمپنز میں سے ہیں۔۔۔سلیم صاحب نے آگاہ کیا۔۔۔ جی ٹھیک ہے۔۔۔آپ جاۓ میں دیکھ لیتی ہوں۔۔۔ جی بہتر۔۔۔ سلیم کے جاتے ہی ہانیہ نے فائلز کو دیکھا۔۔۔ایک کے بعد دوسری پڑھ کر وہ سائن کیے جا رہی تھی۔۔۔آخری فائل پڑھتے ہوۓ اسکی نظر کمپنی کے نام پرپڑی۔۔جس پر شیرازی گروپ اوف انڈسٹریز لکھا ہوا تھا۔۔۔۔نام دیکھ کر تو جیسے ہانیہ سانس لینا ہی بھول گئی ہو۔۔۔ ہانیہ۔۔۔؟؟ جی۔۔ جب تم سی ایس ایس آفسر بن جاؤ گی اور کبھی میری میری فائل تمہارے پاس آئی تو کیاتم اپروو کروگی یا ریجیکٹ۔۔۔شازل نے سوالیہ نظرو سے اسے دیکھا تھا۔۔۔ اور وہ اسکی بات پر مسکرا دی۔۔۔ وہ تو میں آنکھیں بند کر کے اپروو کرونگی۔۔یہ بھلا کوئی پوچھنے کی بات ہے۔۔۔آپ کو کیا لگتا ہے کبھی ایسا ھوگا۔۔۔ہانیہ شنواری شازل شیرازی کی فائل پر سائن نہ کریں۔۔۔ یہ تو وقت آنے پر ہی دیکھیں گے۔۔۔ جی جی دیکھ لیجیے گا۔۔۔ میم۔۔۔؟؟ سلیم کی آواز پر وہ خیالو کی دنیا سے واپس آئی۔۔اور آنکھوں کے گوشے صاف کرتی وہ اسکی طرف متوجہ ہوئی۔۔۔ میم یہ ایک اور فائل ره گئی تھی۔۔۔سوچایہ بھی ابھی آپ کو دے دوں۔۔۔سلیم اسکے ٹیبل پر فائل رکھتے ہوۓ بولا۔۔۔ ٹھیک ہے۔۔۔ان فائلز پر میں نے سائن کر دیے ہیں۔۔۔۔لیکن اس فائل پر میں سائن نہیں کیے۔۔۔ لیکن کیوں میم۔۔۔؟؟سلیم نے شازل کی فائل دیکھتے ہوئے حیرانگی سے پوچھا۔۔۔ سلیم صاحب مجھےاس فائل نے مطمئن نہیں کیا۔۔۔اسلیے نہیں کیے۔۔۔اب آپ یہ لے کر جا سکتے ہیں۔۔۔ لیکن میم یہ تو۔۔۔۔اس پہلے وہ کچھ کہتا ہانیہ نے اسکی بات کاٹی۔۔۔ سلیم صاحب مجھے جو ٹھیک لگے گا میں ویسا ہی کرونگی۔۔۔اب کی بار ہانیہ کی آواز میں سختی تھی۔۔۔ سوری میم۔۔۔۔کہتے ہوئے روم سے چلا گیا۔۔۔۔


ہانیہ بیٹا۔۔۔؟؟نانو نے کمرے آتے ہی اسے مخاطب کیا۔۔۔ جی نانو۔۔۔ہانیہ جو ایمن کو سلا رہی تھی انکو آواز پر متوجہ ہوئی۔۔۔ تم آتے ہی اپنے کمرے آگئی مجھ سے ملی بھی نہیں۔۔۔آج تمہارا پہلا دن تھا یہ بھی نہیں بتایا کہ کیسا گزرا۔۔۔نانو اسکے قریب بیٹھتے ہوۓ بولی۔۔۔ وہ نانو گھر میں آتے ہی یہ بوا کے پاس رو رہی تھی۔۔یہ ٹائم اس کے سونے کا ہوتا ہے میں نے سوچا اس کو سلا کر آپ کے پاس آتی ہوں۔۔۔ اچھا بتاؤ کیسا گزارا پہلا دن۔۔۔؟؟کوئی کام بھی کیاآج۔۔۔؟؟ جی نانو اچھا گزرا تھا۔۔۔اور کام بھی کیا تھا۔۔۔ہانیہ سمبھلتے ہوۓ بولی۔۔۔ سہی۔۔۔۔ہانیہ تم ٹھیک ہو نہ۔۔۔مجھے آئے ایک ہفتہ ہوگیا ہے لیکن تم بہت بجھی بجھی لگتی ہو۔۔۔میری بچی جو تمہارے ساتھ ہوا بھول جاؤ اسے۔۔۔کاش تم اس دن مجھے یا شازل کو فون کرتی تو ہم ضرور کوئی نہ کوئی حال نکال لیتے بلکہ مجھے یقین ہے شازل تمہیں اپنے ساتھ لے کرہی آتا۔۔۔۔ نانو کی بات پر وہ ششدر ره گئی۔۔۔تو کیا شازل نے نانو کو کچھ نہیں بتایا تھا۔۔۔ہانیہ سوچ کر ره گئی۔۔ کیا ہوا۔۔۔؟؟کہا کھو گئی۔۔۔؟؟نانو نے اسے کھوۓ ہوۓ دیکھ کر پوچھا۔۔۔ نانو کی آواز پر وہ چونکی۔۔۔کچھ نہیں نانو۔۔۔ہانیہ کا بس نہیں چل رہا تھا کہ نانو کو سب حقیقت بتا دیں۔۔۔پر شاید اب ان باتو کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔۔۔ میں تو بہت شرمندہ ہوں۔۔۔تمہاری ایكدم شادی کرنے پر میں نے پاکی اور شنواری سے سب رشتے توڑ لیے۔۔۔پاکی کی تو میں نے کوئی بات ہی نہیں سنی۔۔۔اور اسلیے میں سجل کی شادی پر بھی نہیں آئی اور کبھی تمہاری خریت بھی نہیں پوچھی۔۔۔شکر ہے اس رات میں نے فون اٹھالیا ورنہ شاید میں اپنی بچی کو آخری بار بھی نا دیکھ سکتی۔۔۔بولتے ہوۓ نانو رو دی تھیں۔۔۔ پلیز نانو ایسے مت روۓ۔۔۔میری قسمت میں یہی لکھا تھا۔۔۔اور اسے ہوکر ہی رہنا تھا۔۔۔ پر ہانیہ۔۔۔اگر میں اسکی بات سن لیتی اس سے ایک بار بات کر لیتی۔۔۔تو میرا دل کا بوجھ بھی ہلکا ہوجاتا۔۔۔میں خود کو کبھی معاف نہیں کرونگی۔۔۔ ایسا نہیں کہتے نانو۔۔۔آپ بھی غلط نہیں تھیں اور امی بھی۔۔۔بس حالات ہی کچھ ایسے تھے۔۔۔جو ہوا اسے برا خواب سمجھ کر میں بھول گئی ہوں آپ بھی بھول جاۓ۔۔۔اور چلے چل کر کھانا کھاتے ہیں۔۔۔ورنہ آپ کی طبیعت خراب ہوجاۓ گی۔۔۔ہانیہ انکا ہاتھ تھام کر اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔ میرے جانے کے بعد ایمن ایمان آپ کو تنگ تو نہیں کرتی۔۔۔؟؟؟ہانیہ نے انکا موڈ ٹھیک کرنے کے لیے پوچھا۔۔۔ ارے نہیں بلکل بھی نہیں انکی وجہ سے تو گھر میں رونق ہے۔۔۔اور یہ ایمان تو اس قدر سمجھ دار ہےکہ میں اسکی باتیں سن کر خود بہت حیران ہوتی ہوں۔۔۔ جس پر ہانیہ مسکرا دی۔۔۔


سر مے آئی کم ان۔۔۔ جی احسن صاحب آئیں۔۔۔شازل سجیدگی سے بولا۔۔۔ سر وہ۔۔۔احسان ہچکیچاتے ہوۓ بولا۔۔ کیا وہ۔۔۔؟؟آپ پریشان لگ رہے ہیں۔۔کیا بات ہے۔۔۔شازل پوری سے اسکی طرف متوجہ ہوا۔۔۔ سر جو فائل آپ نے اے سی صاحبہ کو بھیجی تھی۔۔۔انہوں نے فائل پر سائن نہیں کیے۔۔۔ اور احسن کی بات پر تو شازل کا چہرہ غصے میں سرخ ہوگیا۔۔۔ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔۔۔ایسا کیسے ہوسکتا ہے کیا وہ ہمارے بارے میں نہیں جانتی۔۔۔شازل دھاڑا تھا۔۔۔ سر وہ نیو آئی ہیں۔۔۔انکا پی اے بتا رہا تھا وہ کافی سخت ہیں۔۔۔ نیو ہے تو کیا ہوا۔۔آج سے پہلے کبھی بھی ایسا نہیں ہوا شیرازی گروپ اوف انڈسٹریز کی فائل کہی جاۓ۔ اور وہ ریجکٹ ہوجاۓ یہ ہو ہی نہیں سکتا۔۔۔یقیناً اس عورت نے جان بوجھ کر یہ سب کیا ہے۔۔۔شازل ایک ایک چبا چبا کر بول رہا تھا۔۔۔ شازل کا غصہ دیکھ کر احسن خاموش ہوگیا۔۔۔ کیا نام ہے اس کا۔۔۔؟؟شازل غصہ کو ضبط کرتے ہوئے بولا۔۔۔ سر انکا نام ہانیہ شنواری ہے۔۔۔ ہانیہ کے نام سن کر تو شازل ششدرره گیا۔۔۔جیسے شازل نے کچھ غلط سنا ہو۔۔۔ تم ہوش میں تو ہو۔۔۔جانتے ہی بھی کس کا نام لے رہے ہو۔۔۔شازل اب اپنی کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔۔۔۔وہ یہ بھی بھول گیا تھا کہ وہ غصے میں آپ سے تم پر آگیا تھا۔۔۔ سر ان کے پی اے نے یہی نام بتایا تھا۔۔۔اب کی بار احسن کی آواز کانپ رہی تھی۔۔۔ جاؤ یہاں سے اور ڈرائیور سے کہو گاڑی نکالے ابھی اور اسی وقت۔۔۔بلکہ نہیں میں خود ہی جاؤنگا۔۔۔شازل کو خود بھی سمجھ نہیں آرہی تھی۔۔۔وہ کیا کریں۔۔۔ہانیہ کے نام سن کر وہ پاگل ہو رہا تھا۔۔۔ جی سر۔۔۔کہتے ہوئے فوراً کمرے سے چلا گیا۔۔۔ اللہ‎ کریں ہانی وہ تم ہی ہو۔۔۔مجھے تم سے ملنا ہے تمہیں سب بتانا ہے۔۔میں آرہا ہوں ہانی۔۔۔مجھے یقین ہے اللہ‎ نے میری دعا قبول کر لی ہے۔۔۔شازل نے اپنا فون اور والٹ اٹھایا اور کمرے سے چلا گیا۔۔۔

   0
0 Comments